میرے بھائی منور احمد ندیم

اک ایسی دنیا کا تصور کرنا جہاں بھائی جان منور نہیں رہے بہت مشکل ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم آج اسی دنیا میں ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نے اپنے والد کو دوسری بار کھو دیا ہو۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ تھے، ایک ایسا سہارا جس سے میں ہر مشکل فیصلے میں مشورہ کرتا۔ جب بھی میں ڈگمگاتا، وہ مجھے تھام لیتے۔ ہر دو ہفتے بعد وہ فون کرتے اور صرف یہ پوچھتے: “سب ٹھیک ہے؟ تم ٹھیک ہو؟” میں بھی ان کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کرتا، لیکن ہمیشہ وہی بازی لے جاتے۔ میں اب ان کی یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ لکھ سکوں، اور احساس ہوتا ہے کہ چند یادوں کے علاوہ میں ان کے بارے میں کتنا کم جانتا ہوں۔ وہ مجھ سے تقریبا 15 سال بڑے تھے، اس لیے میں نے ان کے ساتھ وہ بچپن نہیں گزارا جو میرے بڑے بھائی اور بہن نے گزارا۔ وہ نیک اور اصولوں پر قائم رہنے والے انسان تھے۔ اگر انہیں لگتا کہ آپ غلط ہیں تو سیدھا خلوص کے ساتھ کہہ دیتے۔ میرے لیے وہ ہمیشہ ایک بڑے کی طرح رہنمائی کرنے والے اور سمجھانے والے تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں تیسری جماعت میں تھا، ان کے کوٹ ہمیشہ ٹنگے رہتے تھے اور ان کی جیب میں چاکلیٹ بار ہوا کرتا تھا۔ میں ر...