میرے بھائی منور احمد ندیم
ہر دو ہفتے بعد وہ فون کرتے اور صرف یہ پوچھتے: “سب ٹھیک ہے؟ تم ٹھیک ہو؟” میں بھی ان کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کرتا، لیکن ہمیشہ وہی بازی لے جاتے۔
میں اب ان کی یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ لکھ سکوں، اور احساس ہوتا ہے کہ چند یادوں کے علاوہ میں ان کے بارے میں کتنا کم جانتا ہوں۔ وہ مجھ سے تقریبا 15 سال بڑے تھے، اس لیے میں نے ان کے ساتھ وہ بچپن نہیں گزارا جو میرے بڑے بھائی اور بہن نے گزارا۔
وہ نیک اور اصولوں پر قائم رہنے والے انسان تھے۔ اگر انہیں لگتا کہ آپ غلط ہیں تو سیدھا خلوص کے ساتھ کہہ دیتے۔ میرے لیے وہ ہمیشہ ایک بڑے کی طرح رہنمائی کرنے والے اور سمجھانے والے تھے۔
مجھے یاد ہے جب میں تیسری جماعت میں تھا، ان کے کوٹ ہمیشہ ٹنگے رہتے تھے اور ان کی جیب میں چاکلیٹ بار ہوا کرتا تھا۔ میں روزانہ وہ کھا لیتا اور اگلے دن وہاں ایک نیا بار موجود ہوتا۔
میں خود کو خوش بخت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسے والدین ملے جنہوں نے ہمیں صبر اور وقار کا درس دیا، اور ایسے بھائی بہن عطا ہوئے جنہیں فخر سے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے لئے تو دونوں بھائی ہی اصل ہیرو تھے — وہی جو ہمیں سیر و تفریح پر لے جاتے، گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم سب بچوں کو خوب انجوائے کرواتے۔ ہم نے ہمیشہ اُنہیں شانہ بشانہ دیکھا، ایک دوسرے کے بغیر نامکمل۔ میں فقط اندازہ ہی لگا سکتا ہوں کہ آج میرے بڑے بھائی تنویر کے دل پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی۔ دونوں ہی ہمارے لئے بڑے تھے مگر حقیقت میں وہ ایک جوڑی تھے، ایک رفاقت کے پیکر، اور سب سے بڑھ کر ہمارے لئے بہترین رہنما اور رول ماڈل۔
ہمارے گھر میں جمعہ ہمیشہ کپڑے دھونے کا دن ہوتا تھا۔ منور بھائی بڑے جوش سے مشین نکالتے اور دھلائی شروع کر دیتے۔ تھوڑی ہی دیر میں تنویر بھائی بھی آ جاتے اور کام سنبھالتے۔ بس پھر منور بھائی حسبِ روایت بڑے سکون سے کہتے: ‘میں ذرا بازار ہو کے آتا ہوں…’ اور وہ بازار کا چکر اتنا ‘لمبا’ ہوتا کہ جب تک وہ لوٹتے، ساری مشین کے کپڑے دھل چکے ہوتے۔ یوں ہر ہفتے کا منظر وہی ہوتا — منور بھائی آغاز کرنے والے اور تنویر بھائی انجام تک پہنچانے والے!
میرے بھائی تنویر نے کہا:
“نعیم کے آنے سے پہلے ہم ایک تھے۔ لوگ ہمیں “چنگو منگو” کہا کرتے — ہمیشہ اکٹھے، جیسے ایک جان دو قالب، ہر کام میں ہمراہ۔ وہ میرا بڑا بھائی تھا، مگر اکثر مجھے موقع دیتا کہ میں فیصلہ کروں، اور جب میں فیصلہ کر لیتا تو وہ اُسے قبول کر لیتا اور میرا ساتھ دیتا۔ میں چونسٹھ برس اُس کا چھوٹا بھائی رہا — ایک عمر۔ ہم ایک دوسرے کے راز ایسے جانتے تھے جیسے شاید کوئی اور نہ جان سکے۔ اختلاف ضرور ہوتے مگر میں نے ہمیشہ اُس کے فیصلوں کی تعظیم کی۔ ہمارے درمیان کبھی کوئی پردہ نہ رہا۔
اللہ نے ہمیں مہلت دی کہ ہم اُس کی بیماری میں اُس کا سہارا بن سکیں، اُس کی دلجوئی کر سکیں، اور اُس کے قریب رہ سکیں۔ جس محبت اور ایثار سے عدیلہ، مُبارث، نَرمین اور اُس کی رفیقِ حیات نے اُس کی خدمت کی، وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ایک روشن مثال رہے گا۔ بھائی نے اپنی زندگی کبھی شکایت کے بغیر گزاری؛ وہ خوش رہا، دوسروں کو خوشی بانٹتا رہا — کبھی اپنی شرارتوں سے، کبھی اپنے تحفوں سے، کبھی اپنے پیار اور مزاح سے۔ اُس کو غصہ بھی آتا تو عارضی بادل کی طرح چھٹ جاتا۔
یہ دُکھ تو دل کو کاٹتا ہے کہ ہم اُس وقت اُس کے پاس نہ تھے جب اُس کی روح پرواز کر گئی، مگر ہماری دعائیں ہمیشہ اُس کے ہمراہ تھیں۔ اُس کا چہرہ، اُس کی مسکراہٹ، اُس کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔
ہر جان اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اُسی کی طرف پلٹ جاتی ہے۔ یہی یقین ہے جو غم کی شدت کو نرم کر دیتا ہے، "اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ بچھڑنے والے ہمیشہ دلوں اور دعاؤں میں ساتھ رہتے ہیں۔
وہ بہت اچھے قصہ گو تھے۔ خاندان کی محفلوں میں پرانی یادیں اتنے جوش سے سناتے کہ ہم سب دوبارہ وہ لمحے جیتے۔ ہنستے، باتیں کرتے اور رات گزر جاتی۔
ان کی بیٹی یاد کرتی ہے:
“جب جذباتی باتوں کی باری آتی، تو ابا کم گو ہو جاتے۔ وہ اپنے آنسو سب سے چھپا لیتے لیکن جب خوش ہوتے تو ان کی آواز زندگی سے بھرپور ہوتی۔ ان کی باتوں میں مزاح قدرتی ہوتا اور جب وہ اپنی کہانیاں سناتے تو ایک ہیرو کی طرح ڈرامائی انداز میں سناتے۔ ہمیں ان کی ہر بات پر مزہ آتا۔”
وہ الیکٹرانکس کے ماہر تھے۔ بغیر ڈگری کے بھی کسی انجینئر کے برابر علم رکھتے تھے۔ کمپیوٹرز، سائنس سےلگاو کا ماحول تھا۔ ان کا ریپیئر شاپ ربوہ اور چنیوٹ میں کچھ عرصے رہا اور اکثر مشکل کیسز گھر بھی آ جاتے۔ میں دیکھتا کہ وہ اور بڑے بھائی سرکٹ ڈایاگرام دیکھ کر مسئلے ڈھونڈتے اور حل کرتے۔ جب کامیاب ہوتے تو وہ لمحہ فتح کا ہوتا۔
وہ کھانے کے شوقین تھے اور شاید یہ شوق مجھے بھی ان سے ورثے میں ملا۔ ایک بار جب میں شدید بیمار تھا اور انہیں بھی زکام تھا، ہم دونوں ڈاکٹر ظہیر صاحب کے کلینک پر تھے۔ دروازے کے سامنے علی تکہ شاپ سے کبابوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ کچھ ہی لمحوں بعد ہم ڈاکٹر کو بھول کر وہاں بیٹھے تکے کھا رہے تھے۔
2012
میں جب میں شدید ڈپریشن سے گزر رہا تھا، اچانک ان کا فون آیا
“بتاؤ، کیا پریشانی ہے؟”
میں نے پوچھا انہیں کیسے پتا چلا؟ تو کہا: “امی جان خواب میں آئی تھیں، کہنے لگیں تم سے بات کروں۔”
میں سوچتا ہوں، اب کون ہوگا جو میرا حال یوں جانے گا؟
وہ ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے بھی اپنا وجود محسوس کرواتے۔ اکثر افسوس کرتے کہ مجھے پاکستان سے پہلے نہ نکال سکے۔ لیکن پھر خوش ہوتے کہ میں آخرکار کینیڈا آ گیا۔ کہتے: “سب سیٹ ہو جائے گا۔”
ان کا اللہ سے رشتہ بہت خاموش لیکن گہرا تھا۔ ایک بار پاکستان آئے تو میں نے انہیں تہجد پڑھتے دیکھا۔ پہلی بار دیکھا کہ کوئی اللہ کے حضور اتنا رو رہا ہو اور مانگ رہا ہو۔ میں خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا، اور یہ منظر میری روح پر نقش ہوگیا۔
ان کی بیٹی یاد کرتی ہے:
“ابو کبھی دل میں کینہ نہیں رکھتے تھے۔ کہتے تھے: ‘معاف کردیو تے گل ختم۔ یا تے معاف نہ کرو، پر جدوں کر لیا تے دل صاف کرو۔’”
اگر ایک لفظ میں ان کی شخصیت کو بیان کرنا ہو تو وہ تھا: محبت۔ اگر کوئی “محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں” کا عملی نمونہ تھا، تو وہ انہی کی زندگی تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ میں اور روحیل شاید غم برداشت کرنےکے زیادہ عادی ہیں، شاید اس وجہ سے کہ ہم اپنوں کے چلے
جانے کے غم سے ناواقف نہیں۔لیکن جب دکھ اچانک آپ پر حملہ کرتا ہے تو ساری ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔
میں وہاں جا کر انہیں آخری بار دیکھ نہیں سکتا۔ لیکن شکر ہے اس ٹیکنالوجی کا جس نے فاصلوں کو کچھ کم کیا۔ ایک ماہ پہلے جب اسپتال میں داخل ہوئے تو ڈاکٹروں نے ایک ہفتے کی مہلت بتائی تھی۔ لیکن اللہ نے ہمیں ایک مہینہ اور دیا۔ اس دوران ہم نے باتیں کیں، ہنسے، پرانی یادیں تازہ کیں—دور سے کمپیوٹر پر ہی سہی یہ وقت ایک آخری تحفہ تھا۔
آج ہزاروں میل دور بیٹھا میں ان کی یادوں کو لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ میری رہنمائی کرنے والے ستاروں میں سے ایک تھے۔ ان کے جانے سے میرا ایک حصہ ان کے ساتھ چلا گیا ہے۔
ان کا اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ کیسا تعلق تھا اس پر میں نے کچھ کہا بھی نہیں۔ لیکن سب دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی محبت اور اخلاقی اقدار اپنے بچوں میں کیسےمنتقل کیں۔ جس طرح انہوں نے اپنے والد کو بیماری میں سنبھالا ہے اور جیسے ان کے جانے پر صبر کیا ہے ، یہ خود ان کی بہترین تربیت کا ثبوت ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے میں نے اپنے والد کو دوسری بار کھو دیا ہو، مگر یقین ہے کہ اُن اقدار میں جو اُن کی زندگی کا حاصل تھیں، اُن کہانیوں میں جو آج بھی ہمارے لبوں پر ہیں، اور اُس محبت میں جو وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لئے بو گئے، بھائی جان کبھی ہم سے جدا نہیں ہوں گے۔
اللہ ہمیں یہ صدمہ سہنے کی توفیق دے اور انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ جنت کے بلند ترین مقام پر جگہ عطا کرے۔ آمین۔
Comments